ALLAH par yaqeen ki kahani in urdu islamic urdu stories

IslamicRise
0

 

ALLAH par yaqeen ki kahani in urdu


اللہ پر یقین کی کہانی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ایک بادشاہ تھا جس کی سات بیٹیاں تھیں۔ ایک دن بادشاہ بہت خوش ہوا اور اپنی بیٹیوں سے کہنے لگا” میں تم سے جو سوال کروں گا تم اگر اس کا صحیح جواب دو گی تو میں تمہیں

تمہارا من چاہا تحفہ دوں گا” سب ایک قطار میں کھڑی ہو جاؤ”۔ سب کی سب قطارمیں کھڑی ہو گئیں۔ بادشاہ نے پوچھا کہ ” تم کس کا دیا کھاتی ہو اور کس کا دیا ہوا پہنتی ہو؟

 سات میں سے چھ بیٹیوں نے جواب دیا “کہ حضور آپ کا دیا کھاتی ہیں اور آپ ہی کا دیا ہوا پہنتی ہیں” بادشاہ ان کے اس جواب پر بہت خوش ہوا اور انہیں ان کے من چاہے تحفے دیئے ۔

 سب سے چھوٹی بیٹی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنے رب کا دیا ہوا کھاتی ہوں اور اپنے نصیب کا پہنتی ہوں۔ اور یہی میری قسمت ہے بادشاہ اس کے جواب پر بہت حیرت زدہ ہوا  اور

 بہت طیش  میں آ گیا۔ بادشاہ نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ “اس کو جنگل میں چھوڑ آؤ۔ میں بھی دیکھتا ہوں میرے بغیر یہ کیسے کھاتی ہے اور کیسے پہنتی ہے۔” بادشاہ نے شہزادی سے اس

کےسارے  زیورات اور مہنگے کپڑے لے لیے اور خستہ حال کپڑوں میں جنگل میں چھوڑ آیا ۔

شہزاری مطمئن تھی اوراس کا اللہ پر توکل تھا۔سب سپاہی شہزادی کو جنگل میں چھوڑ کر واپس آگئے اور شہزادی  جنگل میں اکیلی رہ گئی۔شہزادی ادھر ادھر دیکھنے لگی، چاروں طرف درخت ہی درخت

تھے۔ دوپہر سے شام ہوگئی تو شہزادی نے سوچا کیوں نہ رات کے لیے لکڑیاں اکٹھی کر لی جائیں۔ اس سے  رات بھی گزر جائے گی اور آگ کو دیکھ کر کوئی جنگلی جانور بھی قریب نہیں آئے گا۔

لکڑیوں کی تلاش میں جب شہزادی نکلی تو اسے جنگل میں ایک جھونپڑی نظر آئی جہاں باہر ایک بکری بندھی ہوئی تھی اوراندر سے کھانسنے  کی آواز آ رہی تھی۔


 شہزادی  پہلے تو بہت حیران ہوئی کہ ویر­­­­­ان جنگل میں جھونپڑی کیسے؟ پھر وہ جھونپڑی  کے اندر داخل ہوئی تو دیکھتی ہے کہ ایک بوڑھا ضعیف چارپائی پر لیٹا کھانس رہا ہے اور کھانستے

،کھانستے، پانی پانی پکارا رہا ہے ۔ شہزادی نے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں تو اسے ایک طرف پانی کا گھڑا ملا۔ اس نے اس میں سے بوڑھے کو پانی پلایا اور جھونپڑی  کی صاف صفائی کر دی ۔بوڑھا

 پانی پینے کے بعد شہزادی سے پوچھنے لگا “بیٹی تم کون ہو؟ اور اس ویران جنگل میں اکیلی کیا کر رہی ہو۔ اس پر شہزادی نے سارا ماجرا بیان کیا کہ وہ یہاں کیسے پہنچی، یہ سن کر بوڑھے نے

شہزادی کو جھونپڑی  میں رہنے کا کہا کہ ” میں شہر میں کام کرتا ہوں۔” صبح سویرے میں چلا جاؤں گا اور آٹھ دن بعد واپس  آؤں گا جھونپڑی  میں کھانے پینے کا سامان ہے اور قریب ہی ندی ہے تو

وہاں سے پانی بھر لینا” صبح سویرے بوڑھا شہر چلا جاتا ہے اور شہزادی جھونپڑی کی صاف صفائی کر کے بکری کا دودھ دھو لیتی ہے اور آدھا اپنے لیے رکھ لیتی ہے جبکہ آدھا باہر برتن میں رکھ

دیتی ہے کہ کوئی جانور پیاسا  ہوگا تو پی لے گا اور رات کو سو جاتی ہے۔

صبح جب شہزادی اٹھتی  ہے تو  دیکھتی ہے  کہ باہر دودھ کا پیالہ خالی ہے اور قریب ہی ایک خوبصورت اور قیمتی لعل پڑا ہوا ہے جو کہ دیکھنے میں بہت  ہی زیادہ قیمتی لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی سانپ

کے  نشان ہیں۔اس پر  شہزادی کو یاد آتا ہے کہ اس نے بچپن میں سنا تھا کہ جب کوئی نایاب سانپ خوش ہوتا ہے تو وہ ایک ایسا لعل  اگلتا  ہے۔ جس کی قیمت ہیرے جواہرات سے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔

وہ یہ سوچتی  ہے کہ شاید سانپ پیاسا تھا تو وہ دودھ پی کر خوش ہوا اور اس نے یہ لعل اگل دیا۔یہ سوچ کر شہزادی لعل اٹھاتی  ہے اور اپنے پاس رکھ لیتی ہے۔ پھر  اگلی شام شہزادی دوبارہ پیالے

میں دودھ ڈال کر رکھ دیتی ہے اور صبح پھر سے اسے ایک  اورلعل مل جاتا ہے۔ اسی طرح کرتے کرتے سات لعل ہو جاتے ہیں۔ اور اس دن بوڑھا  بھی واپس آ جاتا ہے۔ بوڑھے  کے واپس آنے پر شہزادی

اسے  سارا ماجرا بتاتی ہے ۔ اور تین لعل  اسے دے دیتی ہے اور چار لعل اپنے  گلے میں  ہار بنا  کرپہن لیتی ہے۔ اور بوڑھے کو کہتی ہے کہ” یہ لعل صبح شہر میں جا کر بیچ دینا اور واپسی پر اپنے

ساتھ محل بنانے والے مزدور بھی لے آنا” اگلے روز بوڑھا  مزدوروں کو لے آتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں ایک عالیشان محل تیار ہو جاتا ہے۔ اور وہ بوڑھا اور شہزادی اس محل میں رہنے

لگتے ہیں۔ ایسا خوبصورت محل  کے جس میں دنیا کی ہر آرائش، نوکر چاکر اور تمام لذتیں میسر ہوتی ہیں۔ شہزادی جنگل میں لکڑی کی فیکٹری لگا دیتی ہے۔ جہاں غریب کام کرتے ہیں۔ اور ان کی روزی

روٹی بھی چلتی رہتی ہے” دیکھتے ہی دیکھتے شہزادی  کے چرچے ہونے لگتے ہیں کہ شہزادی بہت ہی رحم دل ہے” اسی طرح یہ خبر بادشاہ تک بھی پہنچ جاتی ہے” تو بادشاہ کے دل میں اشتیاق پیدا

ہوتا ہے؟ وہ دیکھے  تو صحیح کون سے ملک کی شہزادی ہے؟ چنانچہ وہ اپنے سپاہیوں کے ذریعے پیغام بھیجتا  ہے۔

 

 جب شہزادی کے سپاہی اسے بتاتے ہیں۔ تو وہ کہتی ہے کہ وہ بادشاہ سے صرف ایک شرط پر ملے گی” کہ جب بادشاہ اپنی ساری  بیٹیوں کے ساتھ آئے ۔چنانچہ  بادشاہ اگلے روز ہی اپنی ساری بیٹیوں

کے ساتھ شہزادی کے محل میں پہنچ جاتا ہے۔ شہزادی ان  کے  لئے  سات رنگ کے   کھانے  تیار کرواتی ہے ۔ اور ہر  کھانے  کے ساتھ اسی  رنگ  کے کپڑے  اور زیور پہن کرنقاب کے ساتھ سامنے

 آتی ہے ۔محل کی شان  اور وقار دیکھ کر بادشاہ اور اس کی بیٹیاں حیران اور متاثر ہوتے ہیں ۔بادشاہ آخر شہزادی سے کہ ہی دیتا ہے کہ ” کہ تم میری بیٹیوں کی طرح ہو ، اور تمہارے کہنے پر  میں

بھی اپنی ساری بیٹیوں کے ساتھ آیا ہوں۔

پھر ہم سے یہ پردہ کیسا؟ بہت اصرار پر شہزادی مان جاتی ہے اور کہتی ہے کہ  ٹھیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہوں؟ اس پر بادشاہ کی بیٹیاں  آپس میں سرگوشی کرتی ہے کہ اتنی تو تیار ہے، اب  اور

کتنا تیار ہو گی؟ کچھ دیر بعد بادشاہ دیکھتا ہے کہ  دور سے کوئی خستہ حال کپڑوں میں اس کی طرف آ رہا ہے۔غور کرنے پر بادشاہ کو یاد آتا ہے اور کہتا ہے۔” یہ تو زندہ ہے میں تو سمجھا تھا کہ مر

گئی۔ میرے سپاہیوں نے  ہی کہا تھا کہ جنگل میں  شہزادی  موجود نہیں”  یہ دیکھ کر بادشاہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور کہتا ہے شہزادی کو بلاؤ،  میں تمہیں اس سے آزاد کروا لوں گا، پھر

 چاہے وہ تمہاری قیمت میں میری ساری حکومت ہی  کیوں نہ مانگ لے” یہ سن کر شہزادی مسکرا کر کہتی ہے کہ ” ابا حضور میں ہی  وہ شہزادی ہوں ۔ میں نہ کہتی تھی کہ میں اللہ کا دیا کھاتی ہوں

اور اپنے نصیب کا پہنتی ہوں؟ بس اسی اللہ کا احسان ہے کہ آج مجھے اتنا عطا کیا کہ آج میں آپ سے بھی زیادہ امیر ہوں” اس پر شہزادی  انہیں بتاتی ہے سارا حال کہ  وہ یہاں کیسے پہنچی؟ اور

دکھاتی ہے وہ ہار  جس میں ابھی بھی چار لعل موجود تھے ۔ یہ دیکھ کر  باقی شہزادیاں دل ہی دل میں اس پر رشک کرنے لگتی ہیں اور کہتی ہیں کہ کاش ہم نے بھی اس وقت یہی کہا ہوتا کہ ہم اللہ کا دیا

کھاتی ہیں، اور اپنے نصیب کا پہنتی ہیں۔ 

سبق

تو دوستو ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرو ، وہ  جس حال  میں بھی رکھے اس کا ذکرکیا کرو۔ وہ ذات کبھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑے گی۔

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)